Friday 7 March 2014

Hijaab / Parda in Islam

 

زبردستي پردہ!

حجة الاسلام سید محمد جواد بنی سعید
غلط سوال کا بیان:
آپ کایہ سوال ” کیا آپ زبردستی پردے کے موافق ہیں یا مخالف ؟ “صحیح سوال نہیں ہے ۔اگر سوال کی حدیں واضح ہو جائیں کہ زبردستی پردہ کسے کہتے ہیں ؟ اور زبردستی کی جگہ کیاہے؟سوال اپنے غلط ہونے کا خود اعلان کریگا ۔
کبھی پردے کو ایک عقلی یا دینی امر کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے ، یعنی پردے کو ایک جدید اور اعلی فکر کے عنوان کے مد مقابل پیش کیا جاتا ہے ، تاکہ مقابل بھی اس بات کو قبول کر لے، کبھی ایک ایمانی ، اور حکم الھی کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے ، تاکہ اس پر ایمان لایا جائے ۔یہ بات واضح ہے کہ لفظ ”زبردستی “ان دونوں عناوین میں بے معنی ہے ،اس لئے کہ زبردستی نہ ہی فکر میں ممکن ہے اور نہ ایمان و یقین میں۔ لہذا یہ کہنا کہ کیا آپ زبردستی پردے کے قائل ہیں یا مخالف ؟ یہ سوال بنیادی طور پر غلط ہے ۔
کبھی پردہ معاشرے میں پائے جانے والے قانون کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے، یعنی ایک فکر ی اور ایمانی بحث سے الگ جب انسان ایک معاشرے سے وابسطہ ہوتا ہے جو خاص قوانین کے زیر نظر چلتا ہے ۔کہ جس میں پردے کی رعایت کرنا معاشرے کے قوانین( جن کو باقاعدہ مقرر کیا گیا ہو) کی رعایت کرنا ہے ۔ ا س مقام پر بھی یہ سوال کہ ” کیا آپ زبردستی پردے کے قائل ہیں یا مخالف“ صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ” زبردستی “یہاں پابندی اور اصرار کے معنی اس لئے دیتی تاکہ قانون کااجراء ہو سکے ۔اور قانون کے اجراء کی مخالفت کوئی بھی صاحب فہم و عقل نہیں کر سکتا ۔
ظاہر ہے کہ قوانین وہ راستے ہیں جن کو حکومتیں تشکیل دیتی ہیں اور شہر میں رہنے والے افرادکو بتائے جاتے ہیں، شہر کے ہر باشندے کو اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ اور جوبھی ان قوانین کی مخالفت کرتا ہے اس کو مجرم سمجھا جاتا ہے ۔اور جو ان قوانین کی پیروی نہیں کرتا حکومت اس کے خلاف رسمی عہدنامہ کے دستور کے مطابق عمل کرتی ہے ۔
اس کی عام فہم مثال یہ ہے جس کو ہر انسان قبول کرتا ہے وہ ٹریفک اور ڈرائیونگ کے قوانین میں مشاہدہ کر سکتے ہیں ، مثلا ایران میں اس طرح قانون بنایا گیا ہے کہ تمام گاڑیاں داہنی طرف چلتی ہیں ، چاہے وہ کسی بھی دلیل کی بنیاد پرہو ( چاہے غلط ہو یا صحیح )لیکن قانون بنانے والے نے یہ سسٹم بنایا ، اور اس کا اجراء کیا ،اور پلیس کو اس کے اجراء کا ذمہ دار قرار دیا کہ جو بھی اس کی مخالفت کرے اس کو روکا جائے ۔
اب فرض کریں کہ کچھ لوگ آئیں اور کہیں کہ ہم نے انگلینڈ میں دیکھا کہ گاڑیاں بائیں طرف چلتی ہیں ، اور یہ بہت عمدہ ہے ، ہم بھی چاہتے ہیں کہ آزادانا طریقه سے ان کی طرح عمل کریں ہم کو کیوں (بائیں طرف چلنے پر ) مجبور کرتے ہیں ؟ اگر ہم معاشرے کی اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اور شہرکے باشندوں کے حقوق کی رعایت کے لئے اس سوال کو پیش کریں کہ کیا آپ جبرا بائیں طرف چلنے کے موافق ہیں یا مخالف ؟ اور اس کے بعد نتیجہ میں یہ فرض کریں کہ ہر آدمی کو آزاد ہونا چاہیے، چاہے وہ داہنی طرف چلے یا بائیں طرف ! تو یقینا نتیجہ میں مطلوب حاصل نہیں ہوگا ، لہذا اس طرح بنیادی طور پر اس سوال کی پیش کش غلط ہے جب تک اس ملک کا قانون داہنی طرف چلنے کا ہے، اور قانون کے اجراء کرنے میں زبردستی کرنا صحیح ہے، اور معاشرے کے کچھ افراد کا موافقت یا مخالفت کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے، اگر ہزار دلیل بھی کوئی پیش کرے کہ بائیں طرف چلنا بہتر ہے اور وہ اس کو قبول اور پسند کرے (تو بھی اس کی کوئی قیمت نہیں ہے) اگر و ہ اپنی پسند اور رائے پر عمل کرے تو یقینا پکڑا جائے گا اور ایک مجر م کے مانند سزا یا جرمانے سے دوچارہوگا، اگر پھر بھی اس سے بغاوت کرے تو معاشرے کی متعدد بدنصیبی سے دوچار ہو جائیگا ۔
لیکن وہ اس قانون کی مخالفت کے لئے قانون بنانے والے سے رابطہ کر سکتا ہے ، اور داہنی طرف چلنے کے غلط ہونے پر اپنے دلائل پیش کر سکتاہے اور عقلی اور منطقی بنیاد پر اس کو زیر سوال لاکر اس کو قانع کرے کہ تمہارا یہ قانون نقص کا حامل ہے ۔ اگر وہ اس قانون کو بدل دے تو اس وقت وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکتا ہے(یعنی بائیں طرف چل سکتاہے) لیکن اس مقام پر بھی اس نئے قانون(جو اس کے کہنے پر بنا ہے) کے اجراء میں زبردستی کرنا پڑیگی ، جس کے طرفدار اور حامی اس موقع پر و ہ خود ہے ۔

قانون بنانے کی بنیاد:
ہرسالم اور تہذیب یافتہ معاشر ے میں کچھ خاص قوانین حاکم ہوتے ہیں جو ان کے یقین اوراعتقادات کے مطابق ان کے چنیدہ افراد کی مرضی سے بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور وہ ہر معاشرے کے پاس متفاوت ہوتے ہیں۔ مثلا کسی ملک کے معاشرے میں قانون حریت پسندی کی بنیاد پر وضع کئے جاتے ہیں ، اور کسی معاشرے میں اشتراکی فکر کی بنیاد پر ۔ اس نظام کا کوئی بھی اور کچھ بھی سبب ہو ،کسی بھی بنیاد پر بنایا گیا ہو، چاہے صحیح ہو یا غلط ، جب بھی معاشرے کے قوانین کا مرحلہ مکمل طور پر طے ہو جاتا ہے ،الزام اور زبردستی کا مسئلہ قانون کے اجراء کے لئے ایک بدیہی اور معقول امر ہوتا ہے ، اس لئے کہ اس کا قبول نہ کرنا قانون کے اجراء کی ضمانت کا خاتمہ کرنا ہے ، اور جو قانون اپنے اجراء کی ضمانت نہیں رکھتا ہے اس میں اور بے قانونی اور ہرج و مرج میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔
لہذا اگر کسی معاشرے کے قوانین اسلامی فکر اور نظام کے مطابق ہوں، اور اس بنیاد پر اس ملک کے قوانین مرتب اور مقرر ہو جائیں ، تو اجراء کی ذمہ داری کے حوالے سے اس کے جاری کرنے میں الزام اور اجبار بھی دوسرے قوانین سے الگ نہیں ہونگے ۔اور اس کے اجراء میں زبردستی کرنا ایک بدیہی اور معقول امر سمجھا جائے گا ۔
اگر اس موقع پر پردے کے مسئلے میں غور کریں، کہ جو حکومت اسلامی میں ایک قانون کے عنوان سے مقرر ہوا ہے،تو اس کے اجراء میں زبردستی کرنا ایک معقول اور لازم امر ہونا چاہیے ۔اس لئے کہ یہاں بحث نظریاتی یا ایمان لانے کی نہیں ہے ، بلکہ قانون کی ہے لہذا اب چاہے یہ قانون صحیح ہو یا غلط اس کا اجراء ہونا ضروری ہے ۔

صحیح سوال :
صحیح سوال یہ ہے کہ ہم یہ پوچھیں :کیا آپ اصل حجاب کو مانتے ہیں یا نہیں؟ اصل حجاب اچھا ہے یا برا ؟ اس کا قانونی ہونا عقلی یا شرعی بنیاد پر ہے یا نہیں ؟
اس موقع پر ممکن ہے کہ کوئی اعتراض کرے کہ مثلا عقل اور صحیح فکر کی بنیاد پر یا ایمانی نقطہ نگاہ سے پردے کے شرعی ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، لہذا اس مقام پر الزام اور جبر بے معنا ہے، لہذا ہر آدمی اپنے نظریہ کو قانون ساز کے سامنے پیش کرے او ر اس کو قانع کرے کہ یہ قانون بدلنا چاہیے، اور قانون بنانے والے کو چاہیے کہ طے کرے کہ پردے کی رعایت ہونی چاہیے یا نہیں؟ یہ امر قرین عقل ہے یا نہیں ؟ اس کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں؟ بہتر ہے یا بہتر نہیں ہے ؟ لیکن جب تک پردے کی رعایت کا قانون باقی ہے ضروری ہے کہ اس کی رعایت کی جائے اور اس کے جاری رہنے میں زبردستی کرنا بھی ایک ضروری عمل ہے ۔
چنانچہ پردے کے مسئلے میں دو بحثیں قابل غورہیں : پہلی یہ کہ اصل پردا بہتر ہے یا بہتر نہیں ہے؟ اس مقام پر اجبار کے کوئی معنی نہیں ہیں ، لہذا بحث کرکے نتیجہ تک پہنچنا ہوگا کہ اس کو ہونا چاہیے یا نہیں۔؟
دوسری بحث یہ کہ پردے کی رعایت کے قانون میں زبردستی کرنابہتر ہے یا نہیں؟اس مقام پر زبردستی اور اجبار کا مفہوم قانون کے مفہوم سے بہر حال الگ ہے اور بہتریا بہتر نا ہونے کا سوال بالکل غلط سوال ہے ۔
اگر پردہ موجودہ حکومت کے قوانین کی بنیاد پر بہتر ہو ، اوراس کو مقرر کردیا گیا ہو اس کے بعد اس بحث ” کہ اس کا ضروری ہونا بہتر ہے یا نہیں ؟“ کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے ۔اس لئے کہ اگر قانون ہے تو پھر زبردستی کرنااس سے جدا نہیں ہو سکتا ، چاہے ہم اس کو پسند کریں یا پسند نا کریں۔اب جبکہ یہ بات واضح ہوگئی کہ صحیح سوال کیا ہے ، لہذا اس کے جواب کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ کیا حکومت اسلامی میں کہ جس کے قوانین اسلامی اور ایمانی افکار کی بنیاد پر ہو ں، قانون بنانے والا پردے کو ایک مستقل قانون بنائے یا نہیں ۔؟
اس سوال کے جواب کو دو رخ ”فکر“ اور ”ایمان“ کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں، تاکہ عقلی اعتبار سے اہل دانش اور ایمانی اعتبارسے اہل ایمان کے لئے اس قانون کے تقرر کے لئے وضاحت ہو سکے ۔

۱۔ پردے کی ضرورت پر ایمانی دلیل:
اس میں شک نہیں ہے کہ ہر دین میں پہلی شرط ایمان ہوتی ہے کہ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لایا جائے ۔ اور صاحبان ایمان اس بات کو ضروری جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی خداوند عالم کی جانب سے اس کے پیغمبر کے ذریعے ان کے لئے آیا ہے اس کو دل و جان سے قبول کریں۔اور اس کے حکم پر اپنا سرتک قربان کردیں۔اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی خدا وند حکیم کی جانب سے انسا ن کے لئے جو اس کی مخلوق ہے قانون بھیجے گئے ہیں ان پر عمل کرنا دیگر قوانین سے زیادہ بہتر ہے ۔
دین اسلام میں ان قوانین کا سرچشمہ آسمانی کتاب قرآن مجید ہے، جو ہم کو سنت رسول کی پیروی کا حکم دیتی ہے، اور سنت رسول ہم کو ائمہ معصومین (ع) کی پیروی کا حکم دیتی ہے، لہذا اس طرح منبع اسلام تین قرارپاتے ہیں، ۱۔ قرآن ۲۔ سنت پیغمبر(ص)۳۔ سیرت معصومین علیہم السلام۔
اگر قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو ایک مسلمان عورت کے لئے پردے کا واجب ہونا صاف اور واضح نظر آتا ہے، جس کی وضاحت کے لئے سنت پیغمبر کی بھی ضرورت نہیں ہے( جیسا کہ بہت سے قرآنی احکام کی وضاحت کے لئے سنت کی ضرورت ہوتی ہے) ۔
پہلی آیت : وقل للمئومنات یغضضن من ابصار ھن و یحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا و لیضربن ، و بخمرھن علی جیوبھن والا یبدین زینتھن الا لبعولتھن او آبائھن او آباء بعولتھن او ابنائھن اوا ابناء بعولتھن او اخوانھن او بنی اخوانھن بنی اخاتھن او نسائھن او ما ملکت ایمانھن او التابعین غیر اولی الاربة من الرجال او الطفل الذین لم یظھروا علی عورات النساء والا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن و توبوا الی اللہ جمیعا ایھا المومنین لعلکم تفلحون(۳) (۲)
اے رسول موٴمنہ عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی آنکھوں کو (ہوس بازوں کی نگاہ ) سے محفوظ رکھیں، اوراسی طرح اپنے دامن عفت کو محفوظ رکھیں، اور ااپنے اعضاء کو (سوائے ان اعضاء کے جن کا ظاہر کرنا جائز ہے)نمایاں نہ کریں، اور اپنے ڈوپٹے کو سینے پر ڈالیں( تاکہ گردن اور سینہ اس کے ذریعے چھپ جائے)،اور اپنی زینت (اعضاء ) کوسوائے اپنے شوہر ،یاوالد ،یا اپنے شوہر کے والد، یا اپنے بیٹوں ، یا همسر کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں ، یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں،یا اپنی بہنوں کے بیٹوں، یا اپنے ہم مذھب عورتوں ، یا اپنی کنیزوں ، بے وقوف مردوں کو جو ان سے وابسطہ ہیں اور اورعورتوں کی طرف کو ئی رغبت نہ رکھتے ہوں، یاجو بچے جنسی امور سے اگاہی نہیں رکھتے ہیں،کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے نمایاں نہ کریں،اور (اے پیغبر آپ صاحبان ایمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ( راستہ چلتے وقت اپنے اپنے قدموں کو زمین پر اس طرح رکھیں کہ ان کی مخفی زینت ظاہر نہ ہو پائے (یعنی پیروں کی پائل کی آواز لوگوں کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے )، اے مومنوں سب کے سب اللہ کی طرف پلٹ آؤ، تاکہ نجات پا جاؤ۔
دوسری آیت :یا ایھا النبی قل لازواجک و بناتک و نساء امومنین یدنین علیھن من جلابیبھن ذلک ادنی ان یعرفن فلا یٴوذین و اکان اللہ غفورا رحیما(۵) (۴) ۔
اے پیغمبر اپنی زوجات ، بیٹیوں اور مومن عوتوں سے کہ کہہ دیجیے کہ اپنے ڈوپٹے کواپنے اوپر ڈالیں، اور وہ اس کے ذریعے پہچانی جائیں، اورکسی کو اذیت نہ پہنچائیں یہ کام بہتر ہے،(اور اگر اب تک ان سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو انہیں چاہیے کہ توبہ کریں ، اللہ بہت معاف کرنے والا اور مہربان ہے ۔
ان دو آیتوں میں پانچ قسم کے دستور پردے اور اس کی کیفتیت کے بارے میں بیان ہوئے ہیں ۔
۱۔لا یبدین زینتھن الا ما ظہر منہا (اپنی زینت کو سوائے اس کے جو ظاہر ہیں نمایاں نہ کریں۔)
۲۔ ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ۔(اپنے ڈوپٹے یا چادر کو اپنے سینے پر ڈالیں،(تاکہ گردن اور سینہ اس کے ذریعے چھپ جائے) ۔
۳۔ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن اور (اپنی زینت کو اپنے شوہریا ۔۔۔کے علاوہ دوسروں پر نمایاں نہ کریں۔)
۴۔ ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن (اپنے پیروں کو زمین پر اس طرح رکھیں کہ ان کی مخفی زینت آشکارنہ ہو جائے)
۵۔ یدنین علیھن من جلابیبھن (اپنے ڈوپٹے کو اپنے اور پر ڈالیں۔
یہ پانچ دستور وہ ہیں جو امر و نہی کے قالب میں خدا وند عالم کی جانب سے براہ راست صادر ہوئے ہیں ، اور پردے کی ضرورت اور رعایت کے لئے اہل ایمان کے لئے ایک دلیل کی حیثیت رکھتی ہے ،اوران کے لئے اتمام حجت ہے ۔

پردے کی ضرورت پر عقلی دلیل:
پردہ کی کیا ضرورت ہے ۔
معاشرے کے آداب اور تقالید جو معاشرے میں اخلاقی دستور بناتے ہیں، ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ مرد وعورت کے درمیان ایک محکم اور متین رابطہ قاتم کریں ، تاکہ یہ ارتباط جھگڑے اور فساد کا سبب نہ بن جائےںجس کے نتیجہ میں پستی سے دوچار ہونا پڑے ۔اور اس رابطے کی تنظیم کے لئے بینادی عمل شادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
لاندر کا کہنا ہے کہ یاریبا قبیلہ میں بومیان کے درمیان عورت کو شادی کے ذریعہ اپنانا ایک ایسا امر ہے جس کی طرف لوگوں کی رغبت بہت کم ہے، گویا عورت کا حصول ان کے نزدیک ایک گندم کا خوشہ توڑنے کے مانند ہے، یعنی عشق ومحبت کا تصور ان کے یہاں سرے سے نابود ہے ۔ اس لئے کہ شادی سے پہلے جنسی روابط ان کے درمیان ممنوع عمل نہیں ہے ،اس لئے مرد کے سامنے جنسی شہوت کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جس کے نتیجے میں اس کے دل میں عشق و محبت پیدا نہیں ہو پاتی کہ جس کے سبب اس کے یہاں عورت کے حصول میں شدت کے ساتھ قلبی میلان پیدہو سکے، چنانچہ جوان جب بھی چاہتا ہے اپنی جنسی خواہش کو آسانی سے پورا کر لیتا ہے ۔لہذا کوئی علت یا سبب ایسا پیدا نہیں ہو پاتاہے جس کے سبب وہ اپنے ضمیر یا احساسات میں پیدا ہونے والی تحریک کے بارے میں غور و فکر کرے ، اس تحریک کو خاموش کرنے کی فکر کرے ،اور اپنے اس پسندیدہ میلان کو عظیم تصور کرے ، تاکہ اس میلان اور تحریک کے نتیجے میں ایک دل کش عشق وجود میں آئے ۔لہذا وہ کہتا ہے کہ اس معاشرے میں عورت و مرد ایک دوسرے سے کوئی رغبت نہیں رکھتے ، اورایک دوسرے کی حالت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔یہی وجہ ہے کہ شوہر و بیوی کے در میان بھی کسی قسم کے آثار محبت دیکھنے میں نہیں آتے ہیں ۔
پردہ لڑکی کے لئے ایک قسم کا ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی طرف مرغوب ہونے والے افراد میں کسی ایک بہتر شخص کا انتخاب کر سکتی ہے، اوراپنی طرف مرغوب ہونے والی فرد کو اس بات پر مجبور کرسکتی ہے کہ کہ وہ تھذیب اور سلیقے کے ساتھ اس کا حصول کرے ۔عورتوں کی شرم و حیا اور عفت کا مردوں کی شہوت کے مقابلہ میں مانع ہونا،شاعرانہ عشق اور محبت کا سبب بنتا ہے اور عورت کی قدر و قیمت کو مردوں کی نگاہ میں مزید گراں بنا دیتا ہے ۔ اور ایسے نظام کی پیروی کو ختم کردیتا هے جو بکارت کو اهمیت دیتا هےوہ آسانی اور اطمئنان جو شادی سے پہلے جنسی خواہش کی آرزومیں پایا جاتا تھا ،اور وقت سے پہلے ماں بن جانے والے امور کو ختم کر دیتا ہے ۔ اور ظاہر ہے بکارت کے بارے میں اس طرح کی فکر اس بات کا سبب بن جاتی هے که انسان جسمانی اور عقلی اعتبار سے مزید طاقتور هوجائے ، جوانی اور تعلیم و تربیت کا دور لمبا هوجائے جس کے نتیجه می انسان کی تربیت اور تهذیب کی سطح اونچی هوجائے
جنسی روابط کو نظم و ضبط دینا ہمیشہ اخلاق کے مہمترین فرائض میں شمار ہوتاہے ۔اس لئے کہ بچہ پیدا کرنے کا غریزہ تنھا شادی کے موقع ہی پر ہی مشکل پیدا نہیں کرتابلکہ شادی سے پہلے اور اس کے بعد بھی مشکلات کا سبب بنتا ہے ۔اس کے نتیجے میں میں اس غریزے میں شدت اورقانون کی نافرمانی اور طبیعی راستے سے انحراف ، معاشرے میں بچے پیدا کرنے نظام میں بد نظمی اور اور سرکشی کا سبب بنتا ہے ۔جبکہ جنسی زندگی جانوروں کے درمیان بھی آزاد اور بے لگام نہیں ہے، اس لئے کئے مادہ جانور بھی ایک معین وقت کے علاوہ کسی نر جانور کو قبول نہیں کرتا ہے ۔
انسانی معاشرہ اپنی تاریخ میں ہر قسم کے پردے یا برہنگی اور جنسی روابط کو ایک قانون کی حیثیت سے تجربہ کر چکا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی معاشرے میں پردے کا وجود عشق کے مفہوم پر مبنی تھا ، اس بیان کے ساتھ کہ جب بھی میں کسی سے وابسطہ ہوتا ہوں اور اس سے محبت کرتا ہوں ، تو یہ احساس مجھ میں پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور کوئی دوسرا میرے عشق میں تصرف کا حق نہیں رکھتا، اگر کوئی دوسرا میرے عشق پر نظر ڈالے تو وہ میری نفرت کا شکار ہوجاتا ہے ۔ دوسری جانب میرا اس سے عشق کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ میں اس کی حمایت کروں،تاکہ دوسرا اس کی طرف نہ آسکے ،اور سب اس بات کو سمجھ لیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے ہیں ۔یہ وہ احساس ہے جو میرے عشق کے درمیان انے والے افراد کے ساتھ سخت برتاؤ پر مجبور کرتا ہے، اور یہ احساس تقاضا کرتا ہے کہ دوسرے لوگ ان دوعاشقوں کے رابطے کو رسمی سمجھیں ، اور اس کی حدوں کی رعایت کریں ،اور اسی مقام سے شادی کے مسئلے نے اپنی شکل اخیتار کی اور رسمیت حاصل کی،اس طرح ہر فرد اور معاشرہ، جنسی کمیونزم اورمرد و عورت کے غیر قانونی روابط سے الگ ہو جاتاہے ۔اور اس طرح عشق کا خوبصورت مفہوم جو دو عاشقوں کے درمیان مشاہدے میں آتا ہے ،شادی کے مفہوم کومزید حسین اورپسندیدہ بنا دیا ۔
اس بحث کے تسلل میں ،جس وقت کوئی شخص یہ دیکھتا ہے کہ اس کا محبوب اس سے پہلے کسی دوسرے کے ساتھ وابسطہ تھا ،تو اس کے یہاں دلشکنی اور تردد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اورمحبوب کا سابق رابطہ عشق اور خلوص میں کمی کا سبب بن جاتا ہے ، اور یہ امر اس نئے عشق پر اثرانداز ہوتا ہے،اور انسان اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ جو عشق ماضی میں کسی سے وابسطہ نہیں ہوتا ہے وہی زیادہ خوبصورت اور دل آویز ہوتا ہے ۔لہذاس قسم کی عورتیں جب اپنے عشق کو خلوص سے خالی دیکھتی ہیں تو بکارت کے تصور کو اپنی ہم جنس عورتوں کے درمیان رائج کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے شوہروں سے عشق کرنے سے پہلے اپنے جسم کو کسی دوسرے کے حوالے نہ کریں، اور یہ کام ان کو اپنے عشق کے سامنے حقیر اور رسوا نہ کر سکے ۔
اس طرح کی سازگاری کنوارے پن کے مفہوم کو گراں قدراوربے بہا بنا تی ہے،اس لئے کہ عشق اور شادی کی حسین صورت بھی کنوارپن تک سرایت کرتی ہے،اس راہ میں اگر کوئی لڑکی خالص عشق کے حصول کی خاطر باکرہ رہنا چاہے تو دوسروں کی نگاہوں سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں کرسکتی، اور سخت حالات کا سامنا کرتی ہے،لہذا سوائے اپنے آپ کو پردے میں چھپانے کے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے،لہذا اپنی باطنی خوبصورتی اور اپنے کلام کی دلفریبی کو پردے میں رکھے تاکہ غیروں کی اس تک رسائی نہ ہونے پائے ۔اس طرح پردہ معاشرے میں اپنا وجود پیدا کرتا ہے، عشق ، شادی اور کنوارے پن کے حسن کا مالک بن جاتا ہے، اور کنوارے پن ،شادی اور خالص عشق کے حصول کے لئے ایک صدف کی مانند ہو جاتا ہے ۔
اس طرح پاکیزہ عشق معاشرے میں عورت و مرد کے رابطہ کو محکم بناتا ہے اور اصول و قوانین پر اس کی بنیادیں رکھتا ہے جس کو ہر عقل سلیم دوسرے تمام طریقوں پر فوقیت دیتی ہے،یا د رہے اس قسم کا عشق ہمیشہ تھذیب و تمدن کی ترقی کا ثمرہ ہوتا ہے، جہاں انسانی شہوت کو اطمئنان بخشنے کے لئے اخلاقی تعلیمات کے مطابق کچھ حدیں بنائیں جاتی ہیں ۔

پردے کی مخالفت میں ایک منطقی نتیجہ
پردے کا انکار در حقیقت شہوانی قوت کا آزاد کرنا، یااس کو وسعت دینا ، یا برانگیختہ کرنا یا اس کے بے لگام ہونے پر راضی ہوجانایا اس کوتمام حالات میں محبوس کرناہے ، جواس کو باغی و سرکش بنا دیتا ہے،اور نتیجہ میں انسان عقل کے حوالے سے ناتوان ہو جاتا ہے ، اور وہ کمال تک پہنچنے سے معذور ہو جاتا ہے ۔
وہ خاتون جو خود کو زینت دے کر سڑک پر آتی ہے اور اپنے پوشیدہ حسن کے جلوے دکھاتی ہے، اس کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا یہ عمل مردوں کے لئے تحریک کا سبب بنتاہے، اور کسی کی شہوت کو برانگیختہ کرنا اس کے حق کا تجاوز کرناہے، کسی کی شہوت کو تحریک کرنے کا حق صرف اس کو ہوتا ہے جو اس کی شہوت کو پورا کرسکے ۔
آپ فرض کریں کہ ایک خاتون جو دس یا سو آدمیوں کی شہوت کو اپنے چہرے یا کسی پوشیدہ عضو کے ظاہر کرنے یا بالوں کے ذریعے برانگیختہ کرے ، یعنی اس نے اپنے بناؤ سنگار کے ذریعے ان کے وجود میں ہوس پیدا کی ہو ، اور اپنی طرف راغب کیا ہو (جبکہ یہ کیفیت مردوں میں فطری طور پر پائی جاتی ہے ،کہ اگر وہ کسی ہیجان آور منظر کو دیکھتے ہیں تو یہ نا ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہیجان سے بچا لیں لیکن عورت اپنے آپ کو چھپا سکتی ہے)، لہذا یہاں دو ہی صورتیں ہیںیایہ بے پردہ عورتیں ان سب کی شہوت کو پورا کریں، اور یہ کام ان تمام عورتوں سے کہ جو بے پردہ باہر نکلتی ہیں بعید ہے (خاص عورتوں کی بات یہاں نہیں ہیں جن کا یہ ہی پیشہ ہے)اس لئے کہ گفتگو ان خواتین کی ہے جو خاندانی اور عزت دارہیں، جن میں بہت سی متدین بھی ہوتی ہیں اور ممکن ہے اہل نماز اور اہل خدا بھی ہوں ۔ اگر یہ عورتیں ان کی شہوتوں کو پورا نہیں کر سکتی تو پھر ان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو ہیجان میں لائیں اور دوسرے کی حریم پر تجاوز کریں ۔اس لئے کہ یہ مردوں کا حق ہے ان سے نہیں کہا جا سکتا تم آنکھیں بند کرکے راستہ چلو ، لیکن عورتوں سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے حسن کا مظاہرہ یا اپنی زینت کو عیاںنہ کریں ۔

بے پردہ معاشرے میں عورتوں کی مشکلات
مغرب کا مشہور جامعہ شناس” آنتونی گیدنز “ معاشرے میں رہنے والی خواتین کی مشکلات کوبے پردگی کی علت شمار کرتا ہے ، ہم اس مقام پر بعض نکات کی طرف اشارہ کریں گے ۔
اس معاشرے میں عورتوں کی واضح ترین تکلیف جنسی تکلیف ہے ۔جنسی تکلیف جو کام کرنے کی جگہ اقتدار یا قدرت کے استعمال سے عورت پر تحمیل کی جاتی ہے ، ممکن ہے یہ مشکل اس وقت مزید سخت ہو جائے جب کسی کام کرنے والی عورت سے یہ کہا جائے کہ یا جنسی عمل پر راضی ہو جائے یا کام چھوڑدے ۔اگر چہ ممکن ہے مردنرمی کے ساتھ واقع ہونے والی جنسی مشکل کو نقصان دہ شمار نہ کریں ۔ لیکن غالباتمام عورتیں اس کو ذلت و رسوائی سمجھتی ہیں،اورعام طور پر عورتوں سے امید کی جاتی ہے کہ جنسی گفتگو یا اشارے یا نامطلوب قربت کو برداشت کرے اور اس کو کوئی اہمیت نہ دیں ۔
ظاہر ہے کہ مرد کاشرعی طریقے سے عورت کا حاصل کرنا اور اس سے قربت کرنا، غیر شرعی طریقے سے الگ ہے، اس کا ایک تصور کرنا آسان نہیں ہے؛ جیسا کہ شخصی رپورٹ کی بنیا د یہ نتیجہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انگلینڈ میں ہردس عورتوں میں سات عورتیں اپنے کام کی زندگی میں جنسی مشکلات سے دوچار رہوتی ہیں، جبکہ عملی طور جنسی تجاوز کا صحیح اندازا لگانا بہت دشوار ہے ،اس لئے کہ بہت کم واقعات جنسی مشکلات کے پلس تک پہنچتے ہیں جنہیں درج کیا جاتا ہے، اور اصلی تعداد ممکن ہے اس رکورڈ کے پانچ برابر ہو ، بہر حال نتیجہ اندازے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق لندن میں ۱۲۳۶ عورتوں نے اس بات کو آشکا رکیا کہ ان میں ہر چھ عورتوں میں ایک عورت جنسی تجاوز کا شکار ہوئی ہے، اور باقی پانچ عورتوں میں صرف ایک عورت اس بات پر قادر ہوئی کہ اس تجاوز کا مقابلہ کر سکے،اور تجاوز کے نصف حادثے یا عورت کے اپنے گھر میں یا تجاوز کرنے والے کے گھر میں پیش آئے ہیں ۔ اکثر وہ عورتیں جو جنسی تجاوز کا شکار ہوتی ہیں چاہتی ہیں کہ اس حادثہ کو اپنے ذہن سے نکال دیں ، یا اس کی شکایت کرےںکہ جہاں ایک ذلت آمیز طبی معاینہ اور پلیس کی تحقیقات اور کورٹ جانے وغیرہ کی مشکلات سے دوچار ہونا ہوگا، جس کی اس میں اب سکت نہیں ہوتی ہے ، اور ساتھ ساتھ کورٹ کے معاملاات غالبا بہت زیادہ وقت لیتے ہیں ممکن ہے کہ کورٹ، حادثے کے ۱۸ مہینے کے بعد کوئی فیصلہ سنائے ، اور فیصلہ ممکن ہے پریشان کن ثابت ہو جائے، اور کورٹ کے واقعات ہمیشہ علنی ہوتے ہیں،کو رٹ میں مظلوم ظالم کے رو برو ہوتا ہے ،( جو خود ایک وحشت ناک منظر ہوتا ہے) اور اس کے علاوہ د عام طور پرمرد تنھا گواہی کی بنیاد پر مجرم قرار نہیں دیے جاتے اس کے لئے دوسرے محکم ثبوت در کار ہوتے ہیں،یا دوسرے مدارک جو دخول کو ثابت کرتے ہوں، تجاوز کرنے والے کی شناخت ، اس کے علاوہ یہ کہ حادثہ عورت کی مرضی کے بغیر پیش آیا ہے ،ان تمام ثبوت کا فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
آخری چند سالوں میں عورتوں کی تحریک نے جنسی تجاوز کے بارے میں اس عمومی اور قانونی فکر کو بدلنے کے بارے میں بہت اصرار کیا ہے،اور انہوں نے تاکید کی ہے کہ جنسی تجاوز کو تنھا جنسی مخالفت کا عنوان نہ دیا جائے ، بلکہ ایک درد ناک تباہ کاری کا نام دیا جائے اس لئے کہ جنسی تجاوز صرف ایک فیزیکی حملہ نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کی عظمت اورعزت پر حملہ کرناہے ۔ یہ ہی وجہ ہے آج عام طور پر جنسی تجاوزایک قسم کی تباہ کاری جانی جاتی ہے ۔
براون میلر کی نگاہ میں ایک عنوان سے تمام عورتیں جنسی مشکلات سے دوچار ہیں، اس لئے کہ اس طرح کے معاشرے میں وہ عورتیں جو جنسی تجاوز کا شکار نہیں ہیں وہ ان عورتوں کی طرح جو اس مشکل سے دوچار ہوئی ہیں(اس کے خوف و وحشت سے ) مضطرب رہتی ہیں،یہ عورتیں ممکن ہے رات میں اکیلی باہر چلی جائیں ،سڑکوں پر گھومتی ہوئی نظر آئیں ، یا کسی گھر یا فلیٹ میں اکیلی رہتی ہوں،لیکن ممکن ہے کہ انہیں عورتوں کی طرح تنھائی سے وحشت زدہ رہتی ہوں ۔
سوزان براون میلر کا کہنا ہے کہ مردوںکا عام طور سے ان کی خواہشات کے علاوہ ان کا جنسی تجاوز کرنا ایک مردانہ چیلنج ہے جس سے تمام عورتیں خائف رہتی ہیں، جو عورتیں تجاوز جنسی کا شکار نہیں ہوئی ہیں ، وہ ایک بے چینی اور اضطراب کا شکار رہتی ہیں ، ان کو چاہیے کہ اس طرح کی زندگی میں مردوں سے زیادہ محتاط رہیں ۔
مندرجہ ذیل ایک فہرست ذکر کی جا رہی ہے جس میں ضروری اور غیر ضروری باتیں جنسی تجاوز کے خطرے سے بچنے کے لئے ذکر کی گئی ہیں،یہ فہرست امریکا میں عورتوں کی ایک انجمن کے ذریعے نشر کی گئی ہے ، یہ فہرست اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ جنسی تجاوز ایک ایسا جرم ہے جو تمام عورتوں کی زندگی پر اثرانداز ہوتاہے ۔
۱۔ اپنے گھر کو جتنا ممکن ہو محفوظ کیا جائے ۔
۲۔اگر گھر میں اکیلی رہتی ہوں تو گھر کی لائٹوں کو جلا رہنے دیں تاکہ دوسرے کو یہ محسوس ہو کہ گھر میں ایک سے زیادہ افراد رہتے ہیں ۔
۳۔ جس وقت گھر کی گھنٹی پر جواب دو تو ایسا ظاہر کریں کہ گھر میں کوئی مرد موجود ہے ۔
۴۔اپنا نام دروازے پر یا ٹلفون بل پر نہ لکھیں ۔
۵۔ اگر کسی ایک اپارٹمینٹ میں رہتی ہوں تو اکیلے تہ خانے ، پارکنگ ، یا کپڑے دھونے والے روم میں نہ جائیں یا وہاں اکیلے نہ رکیں ۔
اس میں اس مقام پر تجاوز جنسی سے محفوظ رہنے کے لئے ۱۳ نکات ذکر کئے گئے ہیں ۔
لیکن جو نکتہ ان نکات میں فراموش کردیا گیا ہے جس کی رعایت سے معاشرے کے بہت سے مفاسد اور برائیوں کو نابود کیا جا سکتا ہے اور عورتوں کے لئے معاشرے میں امن کا سامان فراہم کرسکتا ہے وہ پردے کی رعایت کرنا ہے ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ پردے کے حوالے سے تنھا لا پرواہی سے کام نہیں لیا گیا ، بلکہ بہت سے حکمرانوں اور سیاست مداروںشیطانی سیاست کے ذریعے اس کے مقابلہ میں محاذ قائم کیااورانہوں نے پردے کو معاشرے سے بالکل ختم کرنے کے لئے قدم اٹھائے ہیں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ازمائے ہوئے کو ازمانا ایک غلطی ہے،اگر آپ اس تیز رفتار معاشرے اور اس میں پائی جانی والی مشکلات جو ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے ، اس سے کہیں زیادہ ہیں،کا مطالعہ کریں تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے ،کہ کم از کم ہم پردے کے مسئلے کو اس معاشرے کے لئے ایک نمونہ قرار دیں، اور معاشرے میں اس کا اجراء کریں، تاکہ اس کے وجود کا ہر درخت ثمرآور ثابت ہو سکے، اور معاشرے میں پردے کے ذریعے امن کی فضا قائم ہو سکے ۔

بہتر ین روش کا تسلط
بہت کم افراد ایسے ہیں جو قوی ارادے اور ایمان کے مالک ہیں اور ہر قیمت پر قانون شریعت کے ملتزم رہتے ہیں، معاشرے کی فضا ان پر اثر انداز نہیں ہوتی ، اور ان کے مقابلے میں کچھ لوگ لاپرواہی کے شکار ہیں اور قانون و شریعت سے سرکشی ان کی عادت میں شامل ہے، اور ان دو قسم کے درمیان اکثر لوگ موجودہ حالات یا وضع کے تابع ہیں، ہمیشہ یہ کہتے ہیں : ہم کیا کریں سبھی اس طرح ہیں...یہ ہی سب کا طریقہ ہے...سب جگہ یہ ہی بیچا جاتا ہے...ہم بھی ان کی طرح مصیبت میں پھنس جائیں گے ۔
اس موقع پر ظاہر ہے، ہر معاشرے کے سربراہ ، مربی اور قانون گر افراد کا یہ فریضہ ہے کہ معاشرے میں اس طرح کا ماحول پیدا کریں کہ عام طور پر معاشرے کی فضا پہلے گروہ کی طرف رغبت اور میلان پیدا کرسکے ،اور نتیجے میں قانون اورصحیح راستے کی فرماں بردار ہو جائے، اور دوسری قسم کے لوگ اپنے طریقے پر پر شرمندگی اورخفت محسوس کریں ۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ روش کی تشکیل دوسری قسم کے افراد ہی کیوں انجام دیتے ہیں، جبکہ قانون اور شریعت کے مدافع پہلی قسم کے افراد ہیں؟ کیوں ایک مسلمان عورت کی بیٹی دوسرے کے سامنے اپنی ماں کے پردہ کرنے پر شرمندگی محسوس کرتی ہے؟کیوں معاشرے کے اکثر افراد بعض افراد کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں،اور رفتہ رفتہ بعض افراد کی گندگی اور کجروی ایک روش بن جاتی ہے؟اقلیت کون سے حق کی بنیاد پر قانون اور شریعت کی مخالفت کرتی ہے؟
یہ بات مسلم ہے کہ معاشرے کی تمام روش اجراء کی ذمہ داری کے (چاہے حسب بط ہو یا حسب ضابط نہ ہو )ساتھ بعض افراد کی غلط روش کے مقابلے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔اب جبکہ پردا اسلامی قوانین کی بنیاد پرایک اسلامی قانون کی حیثیت رکھتا ہے ،لہذا ایک بہترین روش کی حیثیت سے جانا جائے گا ۔”اورآج مسلمان عورت ایک نمونے کے طور پوری دنیا میں پہچانی جاچکی ہے ۔لہذا صاحبان فکر ااور معاشرے کے دانشور افراد کو چاہیے کہ کام کرنے کے طریقے اور اس کے اجراء کی مثبت ضمانت ( صحیح راستے پر چلنے والوں کی جزاء) اور منفی ضمانت (اور منحرف افراد کی سزا )کے بارے میں علمی طور پر اس کی تحقیق کرکے اس کو مرتب کریں،اور معاشرے کے ثقافتی اور قانونی امور کے ذمہ دار افراد کو چاہیے کہ ان امور کا خیال رکھیں اور خود کو اس کا ملتزم بنائیں ۔ غیر رسمی اجرائی ضمانت کی تریج معاشرے کے ثقافتی مراکزجیسے میڈیا، ٹیلی ویزن، یا اس کے ڈرامے، کلچرل سینٹر کے سپر کئے جائیں اور رسمی اجرائی ضمانت کی ترویج اخلاقی امنیت کی ذمہ دار پلس کے حوالے کی جاسکتی ہے ۔
ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے ، کہ پردے کو اگر ایک عقلی یا ایمانی امر تصور کیا جائے تو اس میں زبردستی یا جبر کا تصور نہیں کیا جا سکتا ،اور اگر اس کو ایک قانون کی حیثیت سے دیکھا جائے تو زبردستی یا جبرکا پایا جانا قانون کے حوالے سے ہوگا، جس کے لازم یا ضروری ہونے میں کوئی شک نہیں پایا جاتا ۔

موضوع: زبردستي پردہ!
تاليف :حجة الاسلام سيد محمد جواد بني سعيد ?

غلط سوال کا بيان:


آپ کايہ سوال ” کيا ا?پ زبردستي پردے کے موافق ہيں يا مخالف ؟ “صحيح سوال نہيں ہے ?اگر سوال کي حديں واضح ہو جائيں کہ زبردستي پردہ کسے کہتے ہيں ؟ اور زبردستي کي جگہ کياہے؟سوال اپنے غلط ہونے کا خود اعلان کريگا ?
کبھي پردے کو ايک عقلي يا ديني امر کے عنوان سے پيش کيا جاتا ہے ، يعني پردے کو ايک جديد اور اعلي فکر کے عنوان کے مد مقابل پيش کيا جاتا ہے ، تاکہ مقابل بھي اس بات کو قبول کر لے، کبھي ايک ايماني ، اور حکم الھي کے عنوان سے پيش کيا جاتا ہے ، تاکہ اس پر ايمان لايا جائے ?يہ بات واضح ہے کہ لفظ ”زبردستي “ان دونوں عناوين ميں بے معني ہے ،اس لئے کہ زبردستي نہ ہي فکر ميں ممکن ہے اور نہ ايمان و يقين ميں? لہذا يہ کہنا کہ کيا ا?پ زبردستي پردے کے قائل ہيں يا مخالف ؟ يہ سوال بنيادي طور پر غلط ہے ?
کبھي پردہ معاشرے ميں پائے جانے والے قانون کے عنوان سے پيش کيا جاتا ہے، يعني ايک فکر ي اور ايماني بحث سے الگ جب انسان ايک معاشرے سے وابسطہ ہوتا ہے جو خاص قوانين کے زير نظر چلتا ہے ?کہ جس ميں پردے کي رعايت کرنا معاشرے کے قوانين( جن کو باقاعدہ مقرر کيا گيا ہو) کي رعايت کرنا ہے ? ا س مقام پر بھي يہ سوال کہ ” کيا ا?پ زبردستي پردے کے قائل ہيں يا مخالف“ صحيح نہيں ہے، اس لئے کہ” زبردستي “يہاں پابندي اور اصرار کے معني اس لئے ديتي تاکہ قانون کااجراء ہو سکے ?اور قانون کے اجراء کي مخالفت کوئي بھي صاحب فہم و عقل نہيں کر سکتا ?
ظاہر ہے کہ قوانين وہ راستے ہيں جن کو حکومتيں تشکيل ديتي ہيں اور شہر ميں رہنے والے افرادکو بتائے جاتے ہيں، شہر کے ہر باشندے کو اس پر عمل کرنا ضروري ہوتا ہے ? اور جوبھي ان قوانين کي مخالفت کرتا ہے اس کو مجرم سمجھا جاتا ہے ?اور جو ان قوانين کي پيروي نہيں کرتا حکومت اس کے خلاف رسمي عہدنامہ کے دستور کے مطابق عمل کرتي ہے ?
اس کي عام فہم مثال يہ ہے جس کو ہر انسان قبول کرتا ہے وہ ٹريفک اور ڈرائيونگ کے قوانين ميں مشاہدہ کر سکتے ہيں ، مثلا ايران ميں اس طرح قانون بنايا گيا ہے کہ تمام گاڑياں داہني طرف چلتي ہيں ، چاہے وہ کسي بھي دليل کي بنياد پرہو ( چاہے غلط ہو يا صحيح )ليکن قانون بنانے والے نے يہ سسٹم بنايا ، اور اس کا اجراء کيا ،اور پليس کو اس کے اجراء کا ذمہ دار قرار ديا کہ جو بھي اس کي مخالفت کرے اس کو روکا جائے ?
اب فرض کريں کہ کچھ لوگ ا?ئيں اور کہيں کہ ہم نے انگلينڈ ميں ديکھا کہ گاڑياں بائيں طرف چلتي ہيں ، اور يہ بہت عمدہ ہے ، ہم بھي چاہتے ہيں کہ ا?زادانا طريقه سے ان کي طرح عمل کريں ہم کو کيوں (بائيں طرف چلنے پر ) مجبور کرتے ہيں ؟ اگر ہم معاشرے کي اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اور شہرکے باشندوں کے حقوق کي رعايت کے لئے اس سوال کو پيش کريں کہ کيا ا?پ جبرا بائيں طرف چلنے کے موافق ہيں يا مخالف ؟ اور اس کے بعد نتيجہ ميں يہ فرض کريں کہ ہر ا?دمي کو ا?زاد ہونا چاہيے، چاہے وہ داہني طرف چلے يا بائيں طرف ! تو يقينا نتيجہ ميں مطلوب حاصل نہيں ہوگا ، لہذا اس طرح بنيادي طور پر اس سوال کي پيش کش غلط ہے جب تک اس ملک کا قانون داہني طرف چلنے کا ہے، اور قانون کے اجراء کرنے ميں زبردستي کرنا صحيح ہے، اور معاشرے کے کچھ افراد کا موافقت يا مخالفت کرنا کوئي حيثيت نہيں رکھتا ہے، اگر ہزار دليل بھي کوئي پيش کرے کہ بائيں طرف چلنا بہتر ہے اور وہ اس کو قبول اور پسند کرے (تو بھي اس کي کوئي قيمت نہيں ہے) اگر و ہ اپني پسند اور رائے پر عمل کرے تو يقينا پکڑا جائے گا اور ايک مجر م کے مانند سزا يا جرمانے سے دوچارہوگا، اگر پھر بھي اس سے بغاوت کرے تو معاشرے کي متعدد بدنصيبي سے دوچار ہو جائيگا ?
ليکن وہ اس قانون کي مخالفت کے لئے قانون بنانے والے سے رابطہ کر سکتا ہے ، اور داہني طرف چلنے کے غلط ہونے پر اپنے دلائل پيش کر سکتاہے اور عقلي اور منطقي بنياد پر اس کو زير سوال لاکر اس کو قانع کرے کہ تمہارا يہ قانون نقص کا حامل ہے ? اگر وہ اس قانون کو بدل دے تو اس وقت وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکتا ہے(يعني بائيں طرف چل سکتاہے) ليکن اس مقام پر بھي اس نئے قانون(جو اس کے کہنے پر بنا ہے) کے اجراء ميں زبردستي کرنا پڑيگي ، جس کے طرفدار اور حامي اس موقع پر و ہ خود ہے ?

قانون بنانے کي بنياد:



ہرسالم اور تہذيب يافتہ معاشر ے ميں کچھ خاص قوانين حاکم ہوتے ہيں جو ان کے يقين اوراعتقادات کے مطابق ان کے چنيدہ افراد کي مرضي سے بنائے ہوئے ہوتے ہيں? اور وہ ہر معاشرے کے پاس متفاوت ہوتے ہيں? مثلا کسي ملک کے معاشرے ميں قانون حريت پسندي کي بنياد پر وضع کئے جاتے ہيں ، اور کسي معاشرے ميں اشتراکي فکر کي بنياد پر ? اس نظام کا کوئي بھي اور کچھ بھي سبب ہو ،کسي بھي بنياد پر بنايا گيا ہو، چاہے صحيح ہو يا غلط ، جب بھي معاشرے کے قوانين کا مرحلہ مکمل طور پر طے ہو جاتا ہے ،الزام اور زبردستي کا مسئلہ قانون کے اجراء کے لئے ايک بديہي اور معقول امر ہوتا ہے ، اس لئے کہ اس کا قبول نہ کرنا قانون کے اجراء کي ضمانت کا خاتمہ کرنا ہے ، اور جو قانون اپنے اجراء کي ضمانت نہيں رکھتا ہے اس ميں اور بے قانوني اور ہرج و مرج ميں کوئي فرق نہيں ہوتا ?
لہذا اگر کسي معاشرے کے قوانين اسلامي فکر اور نظام کے مطابق ہوں، اور اس بنياد پر اس ملک کے قوانين مرتب اور مقرر ہو جائيں ، تو اجراء کي ذمہ داري کے حوالے سے اس کے جاري کرنے ميں الزام اور اجبار بھي دوسرے قوانين سے الگ نہيں ہونگے ?اور اس کے اجراء ميں زبردستي کرنا ايک بديہي اور معقول امر سمجھا جائے گا ?
اگر اس موقع پر پردے کے مسئلے ميں غور کريں، کہ جو حکومت اسلامي ميں ايک قانون کے عنوان سے مقرر ہوا ہے،تو اس کے اجراء ميں زبردستي کرنا ايک معقول اور لازم امر ہونا چاہيے ?اس لئے کہ يہاں بحث نظرياتي يا ايمان لانے کي نہيں ہے ، بلکہ قانون کي ہے لہذا اب چاہے يہ قانون صحيح ہو يا غلط اس کا اجراء ہونا ضروري ہے ?

صحيح سوال :



صحيح سوال يہ ہے کہ ہم يہ پوچھيں :کيا ا?پ اصل حجاب کو مانتے ہيں يا نہيں؟ اصل حجاب اچھا ہے يا برا ؟ اس کا قانوني ہونا عقلي يا شرعي بنياد پر ہے يا نہيں ؟
اس موقع پر ممکن ہے کہ کوئي اعتراض کرے کہ مثلا عقل اور صحيح فکر کي بنياد پر يا ايماني نقطہ نگاہ سے پردے کے شرعي ہونے پر کوئي دليل نہيں ہے، لہذا اس مقام پر الزام اور جبر بے معنا ہے، لہذا ہر ا?دمي اپنے نظريہ کو قانون ساز کے سامنے پيش کرے او ر اس کو قانع کرے کہ يہ قانون بدلنا چاہيے، اور قانون بنانے والے کو چاہيے کہ طے کرے کہ پردے کي رعايت ہوني چاہيے يا نہيں؟ يہ امر قرين عقل ہے يا نہيں ؟ اس کا کوئي فائدہ ہے يا نہيں؟ بہتر ہے يا بہتر نہيں ہے ؟ ليکن جب تک پردے کي رعايت کا قانون باقي ہے ضروري ہے کہ اس کي رعايت کي جائے اور اس کے جاري رہنے ميں زبردستي کرنا بھي ايک ضروري عمل ہے ?
چنانچہ پردے کے مسئلے ميں دو بحثيں قابل غورہيں : پہلي يہ کہ اصل پردا بہتر ہے يا بہتر نہيں ہے؟ اس مقام پر اجبار کے کوئي معني نہيں ہيں ، لہذا بحث کرکے نتيجہ تک پہنچنا ہوگا کہ اس کو ہونا چاہيے يا نہيں?؟
دوسري بحث يہ کہ پردے کي رعايت کے قانون ميں زبردستي کرنابہتر ہے يا نہيں؟اس مقام پر زبردستي اور اجبار کا مفہوم قانون کے مفہوم سے بہر حال الگ ہے اور بہتريا بہتر نا ہونے کا سوال بالکل غلط سوال ہے ?
اگر پردہ موجودہ حکومت کے قوانين کي بنياد پر بہتر ہو ، اوراس کو مقرر کرديا گيا ہو اس کے بعد اس بحث ” کہ اس کا ضروري ہونا بہتر ہے يا نہيں ؟“ کي گنجائش نہيں رہ جاتي ہے ?اس لئے کہ اگر قانون ہے تو پھر زبردستي کرنااس سے جدا نہيں ہو سکتا ، چاہے ہم اس کو پسند کريں يا پسند نا کريں?اب جبکہ يہ بات واضح ہوگئي کہ صحيح سوال کيا ہے ، لہذا اس کے جواب کے بارے ميں گفتگو کرتے ہيں? کيا حکومت اسلامي ميں کہ جس کے قوانين اسلامي اور ايماني افکار کي بنياد پر ہو ں، قانون بنانے والا پردے کو ايک مستقل قانون بنائے يا نہيں ?؟
اس سوال کے جواب کو دو رخ ”فکر“ اور ”ايمان“ کے حوالے سے ملاحظہ فرمائيں، تاکہ عقلي اعتبار سے اہل دانش اور ايماني اعتبارسے اہل ايمان کے لئے اس قانون کے تقرر کے لئے وضاحت ہو سکے ?

?? پردے کي ضرورت پر ايماني دليل:


اس ميں شک نہيں ہے کہ ہر دين ميں پہلي شرط ايمان ہوتي ہے کہ خدا اور اس کے پيغمبر پر ايمان لايا جائے ? اور صاحبان ايمان اس بات کو ضروري جانتے ہيں کہ جو کچھ بھي خداوند عالم کي جانب سے اس کے پيغمبر کے ذريعے ان کے لئے ا?يا ہے اس کو دل و جان سے قبول کريں?اور اس کے حکم پر اپنا سرتک قربان کرديں?اور اعتقاد رکھتے ہيں کہ جو کچھ بھي خدا وند حکيم کي جانب سے انسا ن کے لئے جو اس کي مخلوق ہے قانون بھيجے گئے ہيں ان پر عمل کرنا ديگر قوانين سے زيادہ بہتر ہے ?
دين اسلام ميں ان قوانين کا سرچشمہ ا?سماني کتاب قرا?ن مجيد ہے، جو ہم کو سنت رسول کي پيروي کا حکم ديتي ہے، اور سنت رسول ہم کو ائمہ معصومين (ع) کي پيروي کا حکم ديتي ہے، لہذا اس طرح منبع اسلام تين قرارپاتے ہيں، ?? قرا?ن ?? سنت پيغمبر(ص)?? سيرت معصومين عليہم السلام?
اگر قرا?ن مجيد کا مطالعہ کيا جائے تو ايک مسلمان عورت کے لئے پردے کا واجب ہونا صاف اور واضح نظر ا?تا ہے، جس کي وضاحت کے لئے سنت پيغمبر کي بھي ضرورت نہيں ہے( جيسا کہ بہت سے قرا?ني احکام کي وضاحت کے لئے سنت کي ضرورت ہوتي ہے) ?
پہلي ا?يت :
وقل للمئومنات يغضضن من ابصار ھن و يحفظن فروجھن ولا يبدين زينتھن الا ما ظھر منھا و ليضربن ، و بخمرھن علي جيوبھن والا يبدين زينتھن الا لبعولتھن او ا?بائھن او ا?باء بعولتھن او ابنائھن اوا ابناء بعولتھن او اخوانھن او بني اخوانھن بني اخاتھن او نسائھن او ما ملکت ايمانھن او التابعين غير اولي الاربة من الرجال او الطفل الذين لم يظھروا علي عورات النساء والا يضربن بارجلھن ليعلم ما يخفين من زينتھن و توبوا الي اللہ جميعا ايھا المومنين لعلکم تفلحون(?) (?)
اے رسول مو?منہ عورتوں سے کہہ ديجيے کہ اپني ا?نکھوں کو (ہوس بازوں کي نگاہ ) سے محفوظ رکھيں، اوراسي طرح اپنے دامن عفت کو محفوظ رکھيں، اور ااپنے اعضاء کو (سوائے ان اعضاء کے جن کا ظاہر کرنا جائز ہے)نماياںنہ کريں، اور اپنے ڈوپٹے کو سينے پر ڈاليں( تاکہ گردن اور سينہ اس کے ذريعے چھپ جائے)،اور اپني زينت (اعضاء ) کوسوائے اپنے شوہر ،ياوالد ،يا اپنے شوہر کے والد، يا اپنے بيٹوں ، يا ؟؟؟؟يا اپنے بھائيوں ، يا اپنے بھائيوں کے بيٹوں،يا اپني بہنوں کے بيٹوں، يا اپنے ہم مذھب عورتوں ، يا اپني کنيزوں ، بے وقوف مردوں کو جو ان سے وابسطہ ہيں اور اورعورتوں کي طرف کو ئي رغبت نہ رکھتے ہوں، ياجو بچے جنسي امور سے اگاہي نہيں رکھتے ہيں،کے علاوہ کسي دوسرے کے لئے نماياں نہ کريں،اور (اے پيغبر ا?پ صاحبان ايمان عورتوں سے کہہ ديجيے کہ( راستہ چلتے وقت اپنے اپنے قدموں کو زمين پر اس طرح رکھيں کہ ان کي مخفي زينت ظاہر نہ ہو پائے (يعني پيروں کي پائل کي ا?واز لوگوں کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے )، اے مومنوں سب کے سب اللہ کي طرف پلٹ ا?ؤ، تاکہ نجات پا جاؤ?
دوسري ا?يت :يا ايھا النبي قل لازواجک و بناتک و نساء امومنين يدنين عليھن من جلابيبھن ذلک ادني ان يعرفن فلا يوذين و اکان اللہ غفورا رحيما (?) (?) ?
اے پيغمبر اپني زوجات ، بيٹيوں اور مومن عوتوں سے کہ کہہ ديجيے کہ اپنے ڈوپٹے کواپنے اوپر ڈاليں، اور وہ اس کے ذريعے پہچاني جائيں، اورکسي کو اذيت نہ پہنچائيں يہ کام بہتر ہے،(اور اگر اب تک ان سے کوئي کوتاہي ہوئي ہو تو انہيں چاہيے کہ توبہ کريں ، اللہ بہت معاف کرنے والا اور مہربان ہے ?
ان دو ا?يتوں ميں پانچ قسم کے دستور پردے اور اس کي کيفتيت کے بارے ميں بيان ہوئے ہيں ?
??لا يبدين زينتھن الا ما ظہر منہا (اپني زينت کو سوائے اس کے جو ظاہر ہيں نماياں نہ کريں?)
?? وليضربن بخمرھن علي جيوبھن ?(اپنے ڈوپٹے يا چادر کو اپنے سينے پر ڈاليں،(تاکہ گردن اور سينہ اس کے ذريعے چھپ جائے) ?
??ولا يبدين زينتھن الا لبعولتھن او (اپني زينت کو اپنے شوہريا ???کے علاوہ دوسروں پر نماياں نہ کريں?)
?? ولا يضربن بارجلھن ليعلم ما يخفين من زينتھن (اپنے پيروں کو زمين پر اس طرح رکھيں کہ ان کي مخفي زينت ا?شکارنہ ہو جائے)
?? يدنين عليھن من جلابيبھن (اپنے ڈوپٹے کو اپنے اور پر ڈاليں?
يہ پانچ دستور وہ ہيں جو امر و نہي کے قالب ميں خدا وند عالم کي جانب سے براہ راست صادر ہوئے ہيں ، اور پردے کي ضرورت اور رعايت کے لئے اہل ايمان کے لئے ايک دليل کي حيثيت رکھتي ہے ،اوران کے لئے اتمام حجت ہے ?

پردے کي ضرورت پر عقلي دليل:

پردہ کي کيا ضرورت ہے ?

معاشرے کے ا?داب اور تقاليد جو معاشرے ميں اخلاقي دستور بناتے ہيں، ان کا پہلا فرض يہ ہے کہ مرد وعورت کے درميان ايک محکم اور متين رابطہ قاتم کريں ، تاکہ يہ ارتباط جھگڑے اور فساد کا سبب نہ بن جائےںجس کے نتيجہ ميں پستي سے دوچار ہونا پڑے ?اور اس رابطے کي تنظيم کے لئے بينادي عمل شادي کے سوا اور کچھ نہيں ہے ?
لاندر کا کہنا ہے کہ ياريبا قبيلہ ميں بوميان کے درميان عورت کو شادي کے ذريعے اپنانا ايک ايسا امر ہے کہ جس کي طرف لوگوں کي رغبت بہت کم ہے، گويا عورت کا حصول ان کے نزديک ايک گندم کا خوشہ توڑنے کے مانند ہے، يعني عشق ومحبت کا تصور ان کے يہاں سرے سے نابود ہے ? اس لئے کہ شادي سے پہلے جنسي روابط ان کے درميان ممنوع عمل نہيں ہے ،اس لئے مرد کے سامنے جنسي شہوت کے حصول ميں کوئي رکاوٹ نہيں ہے، جس کے نتيجے ميں اس کے دل ميں عشق و محبت پيدا نہيں ہو پاتي کہ جس کے سبب اس کے يہاںعورت کے حصول ميں شدت کے ساتھ قلبي ميلان پيدہو سکے، چنانچہ جوان جب بھي چاہتا ہے اپني جنسي خواہش کو ا?ساني سے پورا کر ليتا ہے ?لہذا کوئي علت يا سبب ايسا پيدا نہيں ہو پاتاہے جس کے سبب وہ اپنے ضمير يا احساسات ميں پيدا ہونے والي تحريک کے بارے ميں غور و فکر کرے ، اس تحريک کو خاموش کرنے کي فکر کرے ،اور اپنے اس پسنديدہ ميلان کو عظيم تصور کرے ، تاکہ اس ميلان اور تحريک کے نتيجے ميں ايک دل کش عشق وجود ميں ا?ئے ?لہذا وہ کہتا ہے کہ اس معاشرے ميں عورت و مرد ايک دوسرے سے کوئي رغبت نہيں رکھتے ، اورايک دوسرے کي حالت کي طرف متوجہ نہيں ہوتے ?يہي وجہ ہے کہ شوہر و بيوي کے در ميان بھي کسي قسم کے ا?ثار محبت ديکھنے ميں نہيں ا?تے ہيں ?
پردہ لڑکي کے لئے ايک قسم کاايسا وسيلہ ہے کہ جس کے ذريعے وہ اپني طرف مرغوب ہونے والے افراد ميں کسي ايک بہتر شخص کا انتخاب کر سکتي ہے، اوراپني طرف مرغوب ہونے والي فرد کو اس بات پر مجبور کرسکتي ہے کہ کہ وہ تھذيب اور سليقے کے ساتھ اس کا حصول کرے ?عورتوں کي شرم و حيا اور عفت کا مردوں کي شہوت کے مقابلہ ميں مانع ہونا،شاعرانہ عشق اور محبت کا سبب بنتا ہے اور عورت کي قدر و قيمت کو مردوں کي نگاہ ميں مزيد گراں بنا ديتا ہے ? اور بکارت کو اہميت دينے والے نظام کي پيروي سے ، ؟؟؟؟وہ ا?ساني اور اطمئنان جو شادي سے پہلے جنسي خواہش کي ا?رزوميں پايا جاتا تھا ،اوروقت سے پہلے ماں بن جانے والے امور کو ختم کر ديتا ہے ? اور ظاہر ہے بکارت کے بارے ميں اس طرح کي فکر جسماني اور عقلي اعتبار سے اور مزيد طاقتور بنا ديتي ہے ، جواني اور تربيت کے دور ميں ؟
جنسي روابط کو نظم و ضبط دينا ہميشہ اخلاق کے مہمترين فرائض ميں شمار ہوتاہے ?اس لئے کہ بچہ پيدا کرنے کا غريزہ تنھا شادي کے موقع ہي پر ہي مشکل پيدا نہيں کرتابلکہ شادي سے پہلے اور اس کے بعد بھي مشکلات کا سبب بنتا ہے ?اس کے نتيجے ميں ميں اس غريزے ميں شدت اورقانون کي نافرماني اور طبيعي راستے سے انحراف ، معاشرے ميں بچے پيدا کرنے نظام ميں بد نظمي اور اور سرکشي کا سبب بنتا ہے ?جبکہ جنسي زندگي جانوروں کے درميان بھي ا?زاد اور بے لگام نہيں ہے، اس لئے کئے مادہ جانور بھي ايک معين وقت کے علاوہ کسي نر جانور کو قبول نہيں کرتا ہے ?
انساني معاشرہ اپني تاريخ ميںہر قسم کے پردے يا برہنگي اور جنسي روابط کو ايک قانون کي حيثيت سے تجربہ کر چکا ہے ?اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائي معاشرے ميں پردے کا وجود عشق کے مفہوم پر مبني تھا ، اس بيان کے ساتھ کہ جب بھي ميں کسي سے وابسطہ ہوتا ہوں اور اس سے محبت کرتا ہوں ، تو يہ احساس مجھ ميں پيدا ہو جاتا ہے کہ وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور کوئي دوسرا ميرے عشق ميں تصرف کا حق نہيں رکھتا، اگر کوئي دوسرا ميرے عشق پر نظر ڈالے تو وہ ميري نفرت کا شکار ہوجاتا ہے ? دوسري جانب ميرا اس سے عشق کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ميں اس کي حمايت کروں،تاکہ دوسرا اس کي طرف نہ ا?سکے ،اور سب اس بات کو سمجھ ليں کہ ہم دونوں ايک دوسرے کے لئے ہيں ?يہ وہ احساس ہے جو ميرے عشق کے درميان انے والے افراد کے ساتھ سخت برتاؤ پر مجبور کرتا ہے، اور يہ احساس تقاضا کرتا ہے کہ دوسرے لوگ ان دوعاشقوں کے رابطے کو رسمي سمجھيں ، اور اس کي حدوں کي رعايت کريں ،اور اسي مقام سے شادي کے مسئلے نے اپني شکل اخيتار کي اور رسميت حاصل کي،اس طرح ہر فرد اور معاشرہ، جنسي کميونزم اورمرد و عورت کے غير قانوني روابط سے الگ ہو جاتاہے ?اور اس طرح عشق کا خوبصورت مفہوم جو دو عاشقوں کے درميان مشاہدے ميں ا?تا ہے ،شادي کے مفہوم کومزيد حسين اورپسنديدہ بنا ديا ?
اس بحث کے تسلل ميں ،جس وقت کوئي شخص يہ ديکھتا ہے کہ اس کا محبوب اس سے پہلے کسي دوسرے کے ساتھ وابسطہ تھا ،تو اس کے يہاں دلشکني اور تردد کي کيفيت پيدا ہو جاتي ہے، اورمحبوب کا سابق رابطہ عشق اور خلوص ميں کمي کا سبب بن جاتا ہے ، اور يہ امر اس نئے عشق پر اثرانداز ہوتا ہے،اور انسان اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ جو عشق ماضي ميں کسي سے وابسطہ نہيں ہوتا ہے وہي زيادہ خوبصورت اور دل ا?ويز ہوتا ہے ?لہذاس قسم کي عورتيں جب اپنے عشق کو خلوص سے خالي ديکھتي ہيں تو بکارت کے تصور کو اپني ہم جنس عورتوں کے درميان رائج کرتي ہيں تاکہ وہ اپنے شوہروں سے عشق کرنے سے پہلے اپنے جسم کو کسي دوسرے کے حوالے نہ کريں، اور يہ کام ان کو اپنے عشق کے سامنے حقير اور رسوا نہ کر سکے ?
اس طرح کي سازگاري کنوارے پن کے مفہوم کو گراں قدراوربے بہا بنا تي ہے،اس لئے کہ عشق اور شادي کي حسين صورت بھي کنوارپن تک سرايت کرتي ہے،اس راہ ميں اگر کوئي لڑکي خالص عشق کے حصول کي خاطر باکرہ رہنا چاہے تو دوسروں کي نگاہوں سے اپنے ا?پ کو محفوظ نہيں کرسکتي، اور سخت حالات کا سامنا کرتي ہے،لہذا سوائے اپنے ا?پ کو پردے ميں چھپانے کے اس کے پاس کوئي راستہ نہيں ہے،لہذا اپني باطني خوبصورتي اور اپنے کلام کي دلفريبي کو پردے ميں رکھے تاکہ غيروں کي اس تک رسائي نہ ہونے پائے ?اس طرح پردہ معاشرے ميں اپنا وجود پيدا کرتا ہے، عشق ، شادي اور کنوارے پن کے حسن کا مالک بن جاتا ہے، اور کنوارے پن ،شادي اور خالص عشق کے حصول کے لئے ايک صدف کي مانند ہو جاتا ہے ?
اس طرح پاکيزہ عشق معاشرے ميں عورت و مرد کے رابطہ کو محکم بناتا ہے اور اصول و قوانين پر اس کي بنياديں رکھتا ہے جس کو ہر عقل سليم دوسرے تمام طريقوں پر فوقيت ديتي ہے،يا د رہے اس قسم کا عشق ہميشہ تھذيب و تمدن کي ترقي کا ثمرہ ہوتا ہے، جہاں انساني شہوت کو اطمئنان بخشنے کے لئے اخلاقي تعليمات کے مطابق کچھ حديں بنائيں جاتي ہيں ?

پردے کي مخالفت ميں ايک منطقي نتيجہ

پردے کا انکار در حقيقت شہواني قوت کا ا?زاد کرنا، يااس کو وسعت دينا ، يا برانگيختہ کرنا يا اس کے بے لگام ہونے پر راضي ہوجانايا اس کوتمام حالات ميں محبوس کرناہے ، جواس کو باغي و سرکش بنا ديتا ہے،اور نتيجہ ميں انسان عقل کے حوالے سے ناتوان ہو جاتا ہے ، اور وہ کمال تک پہنچنے سے معذور ہو جاتا ہے ?
وہ خاتون جو خود کو زينت دے کر سڑک پر ا?تي ہے اور اپنے پوشيدہ حسن کے جلوے دکھاتي ہے، اس کو يہ بات ياد رکھنا چاہيے کہ اس کا يہ عمل مردوں کے لئے تحريک کا سبب بنتاہے، اور کسي کي شہوت کو برانگيختہ کرنا اس کے حق کا تجاوز کرناہے، کسي کي شہوت کو تحريک کرنے کا حق صرف اس کو ہوتا ہے جو اس کي شہوت کو پورا کرسکے ?
ا?پ فرض کريں کہ ايک خاتون جو دس يا سو ا?دميوں کي شہوت کو اپنے چہرے يا کسي پوشيدہ عضو کے ظاہر کرنے يا بالوں کے ذريعے برانگيختہ کرے ، يعني اس نے اپنے بناؤ سنگار کے ذريعے ان کے وجود ميں ہوس پيدا کي ہو ، اور اپني طرف راغب کيا ہو (جبکہ يہ کيفيت مردوں ميں فطري طور پر پائي جاتي ہے ،کہ اگر وہ کسي ہيجان ا?ور منظر کو ديکھتے ہيں تو يہ نا ممکن ہے کہ وہ اپنے ا?پ کو ہيجان سے بچا ليں ليکن عورت اپنے ا?پ کو چھپا سکتي ہے)، لہذا يہاں دو ہي صورتيں ہيںيايہ بے پردہ عورتيں ان سب کي شہوت کو پورا کريں، اور يہ کام ان تمام عورتوں سے کہ جو بے پردہ باہر نکلتي ہيں بعيد ہے (خاص عورتوں کي بات يہاں نہيں ہيں جن کا يہ ہي پيشہ ہے)اس لئے کہ گفتگو ان خواتين کي ہے جو خانداني اور عزت دارہيں، جن ميں بہت سي متدين بھي ہوتي ہيںاور ممکن ہے اہل نماز اور اہل خدا بھي ہوں ? اگر يہ عورتيں ان کي شہوتوں کو پورا نہيں کر سکتي تو پھر ان کو کوئي حق نہيں پہنچتا کہ وہ کسي کو ہيجان ميں لائيں اور دوسرے کي حريم پر تجاوز کريں ?اس لئے کہ يہ مردوں کا حق ہے ان سے نہيں کہا جا سکتا تم آنکھيں بند کرکے راستہ چلو ، ليکن عورتوں سے يہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے حسن کا مظاہرہ يا اپني زينت کو عياںنہ کريں ?
بے پردہ معاشرے ميں عورتوں کي مشکلات
مغرب کا مشہور جامعہ شناس” ا?نتوني گيدنز “ معاشرے ميں رہنے والي خواتين کي مشکلات کوبے پردگي کي علت شمار کرتا ہے ، ہم اس مقام پر بعض نکات کي طرف اشارہ کريں گے ?
اس معاشرے ميں عورتوں کي واضح ترين تکليف جنسي تکليف ہے ?جنسي تکليف جو کام کرنے کي جگہ اقتدار يا قدرت کے استعمال سے عورت پر تحميل کي جاتي ہے ، ممکن ہے يہ مشکل اس وقت مزيد سخت ہو جائے جب کسي کام کرنے والي عورت سے يہ کہا جائے کہ يا جنسي عمل پر راضي ہو جائے يا کام چھوڑدے ?اگر چہ ممکن ہے مردنرمي کے ساتھ واقع ہونے والي جنسي مشکل کو نقصان دہ شمار نہ کريں ? ليکن غالباتمام عورتيں اس کو ذلت و رسوائي سمجھتي ہيں،اورعام طور پر عورتوں سے اميد کي جاتي ہے کہ جنسي گفتگو يا اشارے يا نامطلوب قربت کو برداشت کرے اور اس کو کوئي اہميت نہ ديں ?
ظاہر ہے کہ مرد کاشرعي طريقے سے عورت کا حاصل کرنا اور اس سے قربت کرنا، غير شرعي طريقے سے الگ ہے، اس کا ايک تصور کرنا ا?سان نہيں ہے؛ جيسا کہ شخصي رپورٹ کي بنيا د يہ نتيجہ ديکھنے ميں ا?يا ہے کہ انگلينڈ ميں ہردس عورتوں ميں سات عورتيں اپنے کام کي زندگي ميں جنسي مشکلات سے دوچار رہوتي ہيں، جبکہ عملي طور جنسي تجاوز کا صحيح اندازا لگانا بہت دشوار ہے ،اس لئے کہ بہت کم واقعات جنسي مشکلات کے پلس تک پہنچتے ہيں جنہيں درج کيا جاتا ہے، اور اصلي تعداد ممکن ہے اس رکورڈ کے پانچ برابر ہو ، بہر حال نتيجہ اندازے سے کہيں زيادہ ہوتا ہے ?
ايک تحقيق کے مطابق لندن ميں ???? عورتوں نے اس بات کو ا?شکا رکيا کہ ان ميں ہر چھ عورتوں ميں ايک عورت جنسي تجاوز کا شکار ہوئي ہے، اور باقي پانچ عورتوں ميں صرف ايک عورت اس بات پر قادر ہوئي کہ اس تجاوز کا مقابلہ کر سکے،اور تجاوز کے نصف حادثے يا عورت کے اپنے گھر ميں يا تجاوز کرنے والے کے گھر ميں پيش ا?ئے ہيں ? اکثر وہ عورتيں جو جنسي تجاوز کا شکار ہوتي ہيں چاہتي ہيں کہ اس حادثہ کو اپنے ذہن سے نکال ديں ، يا اس کي شکايت کرےںکہ جہاں ايک ذلت ا?ميز طبي معاينہ اور پليس کي تحقيقات اور کورٹ جانے وغيرہ کي مشکلات سے دوچار ہونا ہوگا، جس کي اس ميں اب سکت نہيں ہوتي ہے ، اور ساتھ ساتھ کورٹ کے معاملاات غالبا بہت زيادہ وقت ليتے ہيں ممکن ہے کہ کورٹ، حادثے کے ?? مہينے کے بعد کوئي فيصلہ سنائے ، اور فيصلہ ممکن ہے پريشان کن ثابت ہو جائے، اور کورٹ کے واقعات ہميشہ علني ہوتے ہيں،کو رٹ ميں مظلوم ظالم کے رو برو ہوتا ہے ،( جو خود ايک وحشت ناک منظر ہوتا ہے) اور اس کے علاوہ د عام طور پرمرد تنھا گواہي کي بنياد پر مجرم قرار نہيں ديے جاتے اس کے لئے دوسرے محکم ثبوت در کار ہوتے ہيں،يا دوسرے مدارک جو دخول کو ثابت کرتے ہوں، تجاوز کرنے والے کي شناخت ، اس کے علاوہ يہ کہ حادثہ عورت کي مرضي کے بغير پيش ا?يا ہے ،ان تمام ثبوت کا فراہم کرنا ضروري ہوتا ہے ?
ا?خري چند سالوں ميں عورتوں کي تحريک نے جنسي تجاوز کے بارے ميںاس عمومي اور قانوني فکر کو بدلنے کے بارے ميں بہت اصرار کيا ہے،اور انہوں نے تاکيد کي ہے کہ جنسي تجاوز کو تنھا جنسي مخالفت کا عنوان نہ ديا جائے ، بلکہ ايک درد ناک تباہ کاري کا نام ديا جائے اس لئے کہ جنسي تجاوز صرف ايک فيزيکي حملہ نہيں ہے بلکہ تمام انسانوں کي عظمت اورعزت پر حملہ کرناہے ? يہ ہي وجہ ہے ا?ج عام طور پر جنسي تجاوزايک قسم کي تباہ کاري جاني جاتي ہے ?
براون ميلر کي نگاہ ميں ايک عنوان سے تمام عورتيں جنسي مشکلات سے دوچار ہيں، اس لئے کہ اس طرح کے معاشرے ميں وہ عورتيں جو جنسي تجاوز کا شکار نہيں ہيں وہ ان عورتوں کي طرح جو اس مشکل سے دوچار ہوئي ہيں(اس کے خوف و وحشت سے ) مضطرب رہتي ہيں،يہ عورتيں ممکن ہے رات ميں اکيلي باہر چلي جائيں ،سڑکوں پر گھومتي ہوئي نظر ا?ئيں ، يا کسي گھر يا فليٹ ميں اکيلي رہتي ہوں،ليکن ممکن ہے کہ انہيں عورتوں کي طرح تنھائي سے وحشت زدہ رہتي ہوں ?
سوزان براون ميلر کا کہنا ہے کہ مردوںکا عام طور سے ان کي خواہشات کے علاوہ ان کا جنسي تجاوز کرنا ايک مردانہ چيلنج ہے جس سے تمام عورتيں خائف رہتي ہيں، جو عورتيں تجاوز جنسي کا شکار نہيں ہوئي ہيں ، وہ ايک بے چيني اور اضطراب کا شکار رہتي ہيں ، ان کو چاہيے کہ اس طرح کي زندگي ميں مردوں سے زيادہ محتاط رہيں ?
مندرجہ ذيل ايک فہرست ذکر کي جا رہي ہے جس ميں ضروري اور غير ضروري باتيں جنسي تجاوز کے خطرے سے بچنے کے لئے ذکر کي گئي ہيں،يہ فہرست امريکا ميں عورتوں کي ايک انجمن کے ذريعے نشر کي گئي ہے ، يہ فہرست اس بات کي تاکيد کرتي ہے کہ جنسي تجاوز ايک ايسا جرم ہے جو تمام عورتوں کي زندگي پر اثرانداز ہوتاہے ?
?? اپنے گھر کو جتنا ممکن ہو محفوظ کيا جائے ?
??اگر گھر ميں اکيلي رہتي ہوں تو گھر کي لائٹوں کو جلا رہنے ديں تاکہ دوسرے کو يہ محسوس ہو کہ گھر ميں ايک سے زيادہ افراد رہتے ہيں ?
?? جس وقت گھر کي گھنٹي پر جواب دو تو ايسا ظاہر کريں کہ گھر ميں کوئي مرد موجود ہے ?
??اپنا نام دروازے پر يا ٹلفون بل پر نہ لکھيں ?
?? اگر کسي ايک اپارٹمينٹ ميں رہتي ہوں تو اکيلے تہ خانے ، پارکنگ ، يا کپڑے دھونے والے روم ميں نہ جائيں يا وہاں اکيلے نہ رکيں ?
اس ميں اس مقام پر تجاوز جنسي سے محفوظ رہنے کے لئے ?? نکات ذکر کئے گئے ہيں ?
ليکن جو نکتہ ان نکات ميں فراموش کرديا گيا ہے جس کي رعايت سے معاشرے کے بہت سے مفاسد اور برائيوں کو نابود کيا جا سکتا ہے اور عورتوں کے لئے معاشرے ميں امن کا سامان فراہم کرسکتا ہے وہ پردے کي رعايت کرنا ہے ?افسوس کا مقام يہ ہے کہ پردے کے حوالے سے تنھا لا پرواہي سے کام نہيں ليا گيا ، بلکہ بہت سے حکمرانوں اور سياست مداروںشيطاني سياست کے ذريعے اس کے مقابلہ ميں محاذ قائم کيااورانہوں نے پردے کو معاشرے سے بالکل ختم کرنے کے لئے قدم اٹھائے ہيں ?
ہم سمجھتے ہيں کہ ازمائے ہوئے کو ازمانا ايک غلطي ہے،اگر ا?پ اس تيز رفتار معاشرے اور اس ميں پائي جاني والي مشکلات جو ايک دوسرے کے دست و گريباں ہيں جن کا ذکر ہم نے کيا ہے ، اس سے کہيں زيادہ ہيں،کا مطالعہ کريں تو ايک ہي بات سمجھ ميں ا?تي ہے ،کہ کم از کم ہم پردے کے مسئلے کو اس معاشرے کے لئے ايک نمونہ قرار ديں، اور معاشرے ميں اس کا اجراء کريں، تاکہ اس کے وجود کا ہر درخت ثمرا?ور ثابت ہو سکے، اور معاشرے ميں پردے کے ذريعے امن کي فضا قائم ہو سکے ?

بہتر ين روش کا تسلط


بہت کم افراد ايسے ہيں جو قوي ارادے اور ايمان کے مالک ہيں اور ہر قيمت پر قانون شريعت کے ملتزم رہتے ہيں، معاشرے کي فضا ان پر اثر انداز نہيں ہوتي ، اور ان کے مقابلے ميں کچھ لوگ لاپرواہي کے شکار ہيںاور قانون و شريعت سے سرکشي ان کي عادت ميں شامل ہے، اور ان دو قسم کے درميان اکثر لوگ موجودہ حالات يا وضع کے تابع ہيں، ہميشہ يہ کہتے ہيں : ہم کيا کريں سبھي اس طرح ہيں..يہ ہي سب کا طريقہ ہے..سب جگہ يہ ہي بيچا جاتا ہے..ہم بھي ان کي طرح مصيبت ميں پھنس جائيں گے ?
اس موقع پر ظاہر ہے، ہر معاشرے کے سربراہ ، مربي اور قانون گر افراد کا يہ فريضہ ہے کہ معاشرے ميں اس طرح کا ماحول پيدا کريں کہ عام طور پر معاشرے کي فضا پہلے گروہ کي طرف رغبت اور ميلان پيدا کرسکے ،اور نتيجے ميں قانون اورصحيح راستے کي فرماں بردار ہو جائے، اور دوسري قسم کے لوگ اپنے طريقے پر پر شرمندگي اورخفت محسوس کريں ?
سوال يہ ہے کہ موجودہ روش کي تشکيل دوسري قسم کے افراد ہي کيوںانجام ديتے ہيں، جبکہ قانون اور شريعت کے مدافع پہلي قسم کے افراد ہيں؟ کيوں ايک مسلمان عورت کي بيٹي دوسرے کے سامنے اپني ماں کے پردہ کرنے پر شرمندگي محسوس کرتي ہے؟کيوں معاشرے کے اکثر افراد بعض افراد کے رنگ ميں رنگے جاتے ہيں،اور رفتہ رفتہ بعض افراد کي گندگي اور کجروي ايک روش بن جاتي ہے؟اقليت کون سے حق کي بنياد پر قانون اور شريعت کي مخالفت کرتي ہے؟
يہ بات مسلم ہے کہ معاشرے کي تمام روش اجراء کي ذمہ داري کے (چاہے حسب بط ہو يا حسب ضابط نہ ہو )ساتھ بعض افراد کي غلط روش کے مقابلے ميں مدد گار ثابت ہوتي ہيں ?اب جبکہ پردا اسلامي قوانين کي بنياد پرايک اسلامي قانون کي حيثيت رکھتا ہے ،لہذا ايک بہترين روش کي حيثيت سے جانا جائے گا ?”اورا?ج مسلمان عورت ايک نمونے کے طور پوري دنيا ميں پہچاني جاچکي ہے ?لہذا صاحبان فکر ااور معاشرے کے دانشور افراد کو چاہيے کہ کام کرنے کے طريقے اور اس کے اجراء کي مثبت ضمانت ( صحيح راستے پر چلنے والوں کي جزاء) اور منفي ضمانت (اور منحرف افراد کي سزا )کے بارے ميں علمي طور پر اس کي تحقيق کرکے اس کو مرتب کريں،اور معاشرے کے ثقافتي اور قانوني امور کے ذمہ دار افراد کو چاہيے کہ ان امور کا خيال رکھيں اور خود کو اس کا ملتزم بنائيں ? غير رسمي اجرائي ضمانت کي تريج معاشرے کے ثقافتي مراکزجيسے ميڈيا، ٹيلي ويزن، يا اس کے ڈرامے، کلچرل سينٹر کے سپر کئے جائيں اور رسمي اجرائي ضمانت کي ترويج اخلاقي امنيت کي ذمہ دار پلس کے حوالے کي جاسکتي ہے ?
ان تمام باتوں کا نتيجہ يہ نکلتا ہے ، کہ پردے کو اگر ايک عقلي يا ايماني امر تصور کيا جائے تو اس ميں زبردستي يا جبر کا تصور نہيں کيا جا سکتا ،اور اگر اس کو ايک قانون کي حيثيت سے ديکھا جائے تو زبردستي يا جبرکا پايا جانا قانون کے حوالے سے ہوگا، جس کے لازم يا ضروري ہونے ميں کوئي شک نہيں پايا جاتا ?


حوالہ جات
?? ظاہر کہ مخالف کے لئے دونوںنظريے ” فکر “ اور ”ايمان“کے راستے کھلے ہوئے ہيں ان ميں سے جس کا چاہے انتخاب کر ے اور صحيح نظريہ کو پيش کر سکتاہے ?
?? النور ا?يت ???
?? ” ابدا“ اظہا کے معني ميں ? اور عورتوں کي زينت سے مراد وہ اعضاء ہيں جن کو زينت دي جاتي ہے ?اور لفظ ” خمر“ او ر اس کي جمع خمار ہے، اور ”خمار“ وہ کپڑا ہے جسے عورت اپنے سر پر لپيٹتي ہے، اور بچے ہوئے کو اپنے سينے پر ڈالتي ہے ، جسے مقنعہ بھي کہا جاتا ہے ?
اور ا?يت ميں لفظ ”جيوب“ جيب کي جمع ہے جس کے معني سينے کے ہيں ،اور گريبان کے ہيں ?
لفظ ”بعولہ“ يعني شوہر ? اور سات طوايف سے مراد وہ ہيں جو سببي يا نسبي طور پر محرم ہوتے ہيں ?
لفظ ” اربہ“ خواہش کے معني ميں ہے اور اس سے مراد شہواني خواہش ہے ?
اور رجال تابعين سے مراد بے وقوف افراد ہيں کہ جو دوسروں کے زير تسلط ہيں اور ان ميں شہوت مردانہ نہيں پائي جاتي ?
?? احزاب ا?يت ???
??” جلابيب “ جلباب کي جمع ہے اور اسے مراد وہ لباس ہے جو سر سے پير تک پورے بدن کو چھپا سکے ؛ جو عباء سے چھوٹا اور خمار سے بڑا ہوتا ہے ?
” يدنين“ يعني ا?گے کھينچتے ہيں ?
?? ان ا?يا ت کي مزيد توضيح کے لئے ا?پ ان کي تفسير اور ان روايات کي طرف جو ان کے ذيل ميں وارد ہوئي ہيں مراجعہ کر سکتے ہيں ?يہ بات قابل ذکر ہے کہ پردے کے سلسلے ميں مندرجہ بالا ا?يات کے علاوہ اور بھي بہت سي ا?يات ہيں جو پردے کے ضروري ہونے پر دلالت کرتي ہيں ?( جيسے سورہ نورکي ايت ?? ، سورہ احزاب ايت ?? )? اور بہت سي مستقل کتابيں پردے کے بارے ميں لکھي گئي ہيں ان کي طرف مراجعہ کيا جا سکتا ہے ?
?? تاريخ تمدن جلد ? صفحہ ?? ?
?? تاريخ تمدن جلد ? صفحہ ???
?? اس جملہ سے خاندانوں کي شديد تباہکاري ، اور شاد ي کي مشترک زندگي ، طلاق کي کثرت ، اور عشق کا رومانس ، اور ايک دوسرے کے ساتھ معاہدے، نا جائز جنسي روابط ، اور افسوس ناک جنسي فساد .... کي طرف اشارہ کيا گيا ہے؛ کہ ان تمام فساد کا سرچشمہ بے پردگي کا مسئلہ ہے ? اور شرم و حيا کا فقدان ، معاشرے کے افراد کے درميان عفت کا نابود ہونا ان تمام مسائل کو معمولي توجہ (يعني پردے کي رعايت ) کے ذريعے روکا جا سکتا ہے ?
??? رسمي طور پر اجراء کي ضمانت، حکومت کي ذمہ ہوتي ہے، جيسے معاشرے ميں سزا کا نظام وغيرہ کہ جہاں کورٹ اور زندان حکومت کي نمايندگي کرتے ہيں ?
اور غيررسمي اجراء کي ذمہ داري زيادہ ترشہر کے باشندوں يا حکومت کے اداروں اور ثقافتي يا خدماتي مراکز کے ذمہ ہوتي ہے، جيسے عام طريقے سے تشويق دلانا يا معاشرے کے خاص امتيازات، يا کسي کام ميںسہولت يا اولويت دينا ، يا کسي کام پر راضي ہونا ، يا کسي کام پر سر زنش کرنا ، يا بعض افراد سے دور رکھنا ، يا معاشرے ميں کسي چيز سے محروم رکھنا ، يا کسي چيز سے مذاق بننا ، يا شرمندہ ہونا ، ياکسي خاص چيز ميں قبول نہ ہونا ،يا ..وغيرہ
۱۔ ظاہر کہ مخالف کے لئے دونوںنظریے ” فکر “ اور ”ایمان“کے راستے کھلے ہوئے ہیں ان میں سے جس کا چاہے انتخاب کر ے اور صحیح نظریہ کو پیش کر سکتاہے ۔
۲۔ النور آیت ۳۱۔
۳۔ ” ابدا“ اظہا کے معنی میں ۔ اور عورتوں کی زینت سے مراد وہ اعضاء ہیں جن کو زینت دی جاتی ہے ۔اور لفظ ” خمر“ او ر اس کی جمع خمار ہے، اور ”خمار“ وہ کپڑا ہے جسے عورت اپنے سر پر لپیٹتی ہے، اور بچے ہوئے کو اپنے سینے پر ڈالتی ہے ، جسے مقنعہ بھی کہا جاتا ہے ۔
اور آیت میں لفظ ”جیوب“ جیب کی جمع ہے جس کے معنی سینے کے ہیں ،اور گریبان کے ہیں ۔
لفظ ”بعولہ“ یعنی شوہر ۔ اور سات طوایف سے مراد وہ ہیں جو سببی یا نسبی طور پر محرم ہوتے ہیں ۔
لفظ ” اربہ“ خواہش کے معنی میں ہے اور اس سے مراد شہوانی خواہش ہے ۔
اور رجال تابعین سے مراد بے وقوف افراد ہیں کہ جو دوسروں کے زیر تسلط ہیں اور ان میں شہوت مردانہ نہیں پائی جاتی ۔
۴۔ احزاب آیت ۵۹۔
۵۔” جلابیب “ جلباب کی جمع ہے اور اسے مراد وہ لباس ہے جو سر سے پیر تک پورے بدن کو چھپا سکے ؛ جو عباء سے چھوٹا اور خمار سے بڑا ہوتا ہے ۔
” یدنین“ یعنی آگے کھینچتے ہیں ۔
۶۔ ان آیا ت کی مزید توضیح کے لئے آپ ان کی تفسیر اور ان روایات کی طرف جو ان کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں مراجعہ کر سکتے ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پردے کے سلسلے میں مندرجہ بالا آیات کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو پردے کے ضروری ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔( جیسے سورہ نورکی ایت ۶۰ ، سورہ احزاب ایت ۵۳ )۔ اور بہت سی مستقل کتابیں پردے کے بارے میں لکھی گئی ہیں ان کی طرف مراجعہ کیا جا سکتا ہے ۔
۷۔ تاریخ تمدن جلد ۱ صفحہ ۴۷ ۔
۸۔ تاریخ تمدن جلد ۱ صفحہ ۵۶۔
۹۔ اس جملہ سے خاندانوں کی شدید تباہکاری ، اور شاد ی کی مشترک زندگی ، طلاق کی کثرت ، اور عشق کا رومانس ، اور ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے، نا جائز جنسی روابط ، اور افسوس ناک جنسی فساد ...․ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ کہ ان تمام فساد کا سرچشمہ بے پردگی کا مسئلہ ہے ۔ اور شرم و حیا کا فقدان ، معاشرے کے افراد کے درمیان عفت کا نابود ہونا ان تمام مسائل کو معمولی توجہ (یعنی پردے کی رعایت ) کے ذریعے روکا جا سکتا ہے ۔
۱۰۔ رسمی طور پر اجراء کی ضمانت، حکومت کی ذمہ ہوتی ہے، جیسے معاشرے میں سزا کا نظام وغیرہ کہ جہاں کورٹ اور زندان حکومت کی نمایندگی کرتے ہیں ۔
اور غیررسمی اجراء کی ذمہ داری زیادہ ترشہر کے باشندوں یا حکومت کے اداروں اور ثقافتی یا خدماتی مراکز کے ذمہ ہوتی ہے، جیسے عام طریقے سے تشویق دلانا یا معاشرے کے خاص امتیازات، یا کسی کام میںسہولت یا اولویت دینا ، یا کسی کام پر راضی ہونا ، یا کسی کام پر سر زنش کرنا ، یا بعض افراد سے دور رکھنا ، یا معاشرے میں کسی چیز سے محروم رکھنا ، یا کسی چیز سے مذاق بننا ، یا شرمندہ ہونا ، یاکسی خاص چیز میں قبول نہ ہونا ،یا ...وغیرہ